مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: جس نے فاطمہ (س) کو اذیت پہنچائي اس نے مجھے اذيت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو اذيت پہنچائی اور اللہ تعالی کو اذيت پہنچانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس سے فاطمہ (س)راضی ہوں اس سے اللہ تعالی راضي ہوتا ہے اور جس سے فاطمہ ناراض ہوں اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہےسیدہ فاطمہ زہرا (س)کی فضیلت میں پیغمبر اسلام کی بیشمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے اکثر حدیثیں علماء اسلام کے نزدیک متفقہ ہیں . جیسے "فاطمہ (س)بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں .ْ
فاطمہ ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں " فاطمہ تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں " . " فاطمہ(س) کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور فاطمہ (س)کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے " جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی اس نے رسول (ص)کو اذیت پہنچائی.,جس نے رسول خدا کو اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی اور خدا کو اذیت پہنچانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، ذکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہرہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں لہذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے نجات دلائی۔
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول اسلام (ص)کھڑے ہوجاتے تھے اورکی پیشانی کو بوسہ دیتے تھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ۔ اسی فاطمہ (س) سے اہل زمانہ نے رسول اسلام (ص) کی وفات کے بعد اپنا رخ پھیر لیااور ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائےگئے، حضرت علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ۔پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے ان کلمات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے۔
سیدہ عالم کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول اسلام (ص) نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ اپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا اور آپ نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے ساتھ مرتے دم تک کلام نہیں کیا اور نہ ہی انھیں اپنے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت دی .
حضرت فاطمہ (س) نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3مہینہ بعد تین جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں شہادت پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلمان فارسی (رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کردیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجدرسول خدا کا حصہ بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8شوال سن ۱۳۴۴ھجری قمری میں آل سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہم السّلام کے ساتھ شہید کرادیا۔
آپ کا تبصرہ